This article was published in Dawn News on January 28, 2022. It is available here:
https://www.dawnnews.tv/news/1176374
وزیرِاعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپنے دوٹوک انداز میں اعلان کیا ہے کہ وہ قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت نہیں کریں گے کیونکہ وہ شہباز شریف کو ایک ایسا شخص سمجھتے ہیں جس نے ملک کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
انہوں نے ٹی وی پر نشر ہونے والے ’آپ کا وزیرِاعظم آپ کے ساتھ‘ نامی سوال و جواب کے سیشن میں کچھ اور سخت بیانات بھی دیے لیکن شہباز شریف کا بائیکاٹ جاری رکھنے والا بیان سب سے جدا تھا کیونکہ یہ آئینی اور سیاسی اعتبار سے اہم قومی مفادات سے متعلق تھا۔
پہلی بات تو یہ کہ کوئی بھی، خصوصاً کسی ملک کا وزیرِاعظم تو بالکل بھی کسی شخص کو یکطرفہ طور پر مجرم قرار نہیں دے سکتا، خاص طور پر سے اس وقت جب وہ شخص قائد حزبِ اختلاف ہو اور اسے ہمارے پارلیمانی نظام میں اگلا وزیر اعظم سمجھا جارہا ہو۔ کسی کو مجرم قرار دینے کا کام واضح طور پر عدالتوں کا ہے اور ایک مہذب معاشرے میں جب تک کوئی عدالت کسی کو مجرم قرار نہ دے وہ قانون کی نظر میں بے قصور ہی ہوتا ہے چاہے اس پر عائد الزامات کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں۔
اگرچہ پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف پر کئی سنگین مقدمات قائم ہیں اور وہ تواتر سے عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے رہتے ہیں تاہم انہیں اب تک کسی مقدمے میں سزا نہیں ہوئی ہے۔ درحقیقت وہ ایک خاطر خواہ وقت سلاخوں کے پیچھے گزار چکے ہیں اور ان پر چلنے والے مقدمات کا حتمی نتیجہ آنے تک عدالتوں نے ہی انہیں ضمانت پر رہا کیا ہے۔
ہماری سیاسی قیادت کے لیے متعدد مقدمے جھیلنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ جس وقت آصف علی زرداری جیل میں تھے اس دوران بے نظیر بھٹو تقریباً ہر دوسرے دن اپنے بچوں کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتی تھیں۔ آصف زرداری نے بھی سخت مقدمات کا سامنا کیا لیکن یہ دونوں ہی اقتدار کے منصب تک پہنچے اور وزیرِاعظم اور صدر بنے۔
سابق وزیرِاعظم نواز شریف پر بھی طیارہ ہائی جیکنگ کا مقدمہ چلا لیکن مقدمہ واپس ہونے کے بعد وہ بھی تیسری مرتبہ وزیرِاعظم بنے۔ اس وقت جاری مقدمات سے قطع نظر پاکستان میں یہ ایک بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومتیں ہمیشہ ہی حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے قائدین کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کے لیے ان کے خلاف ہر ممکن مقدمے قائم کرکے ان کی زندگی اجیرن بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔
شہباز شریف قومی اسمبلی کے منتخب رکن ہیں اور ایوان میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کی قیادت کرنے کی وجہ سے قائد حزبِ اختلاف کے آئینی عہدے پر موجود ہیں جس کا اعلان قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی طرف سے بھی کیا گیا ہے۔ اب جب تک کوئی عدالت ان کو مجرم قرار نہیں دیتی اور وہ اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل نہیں ہوجاتے یا حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین کی اکثریت انہیں ہٹا نہیں دیتی تب تک وہ ایوان میں قائد حزبِ اختلاف رہیں گے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے وزیرِاعظم کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنا چاہیے اور اپنے ذاتی فیصلے کو ایک جانب رکھتے ہوئے شہباز شریف سے مشاورت کرنی چاہیے۔
آئین قائد حزبِ اختلاف کو کچھ اہم ذمہ داریاں تفویض کرتا ہے۔ ہمارے ملک کے چند اہم ترین سرکاری عہدیداروں جیسے چیف الیکشن کمشنر، الیکشن کمیشن کے 4 ممبران اور نیب کے چیئرمین کی تقرری میں وزیرِاعظم کو ان سے مشورہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح عام انتخابات کے انعقاد کے وقت نگراں وزیرِاعظم کی تقرری میں بھی قائد حزبِ اختلاف سے مشاورت ضروری ہوگی۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس مشاورت کو ’۔۔۔محض رسمی طور پر نہیں دیکھا جاسکتا ہے، بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مؤثر، بامعنی، مقصد پر مبنی اور اتفاق رائے پر مبنی ہونی چاہیے جس میں من مانی یا غیر منصفانہ عمل کی شکایت کی کوئی گنجائش نہ چھوڑی جائے‘۔ اس وجہ سے یہ وزیرِاعظم کی مرضی نہیں ہے کہ وہ قائد حزبِ اختلاف سے مشورہ کریں یا نہ کریں۔ یہ ان کی آئینی ذمہ داری ہے۔
ماضی میں جب یہ مشاورت ناگزیر ہوگئی تو وزیرِاعظم نے بالمشافہ ملاقات کے بجائے قائد حزبِ اختلاف کو خط لکھنے کو ترجیح دی۔ بلاشبہ آئین کی روح کا تقاضا ہے کہ وزیرِاعظم قائد حزبِ اختلاف سے ذاتی طور پر مشاورت کریں۔ ایسا نہ کرنے سے مشاورت کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ یہ مشاورت کوئی عام ملاقات نہیں ہے۔ یہ ایک قانونی تقاضا ہے جسے پورا کرنا ضروری ہے۔
اگرچہ وزیرِاعظم ذاتی طور پر قائد حزبِ اختلاف کے ساتھ مشاورت کے خلاف ہیں لیکن انہوں نے اپنے وزرا کو یہ کام سونپ رکھا ہے۔ حال ہی میں وزیرِ خارجہ اور قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی پارلیمانی پارٹی کے قائد شاہ محمود قریشی نے شہباز شریف کو بطور قائد حزبِ اختلاف باضابطہ خط لکھا تھا جس میں انہیں جنوبی پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے حوالے سے آئینی ترمیم پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے پی ٹی آئی سے مشاورت کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اگر وزیرِاعظم کی جانب سے قائد حزبِ اختلاف سے بات چیت کرنا درست نہیں اور اس کا مطلب ’مجرمان‘ کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہے تو پھر وزرا کی جانب سے یہ عمل کس طرح درست ہے؟
بظاہر وزیرِاعظم عمران خان اپنی ذاتی عناد کی وجہ سے اہم معاملات پر حزبِ اختلاف سے ملاقاتیں نہیں کرتے۔ انہوں نے قومی سلامتی سے متعلق اجلاس میں اس وقت بھی شرکت نہیں کی جب فروری 2019ء میں بھارت کی طرف سے بالاکوٹ پر بمباری کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے بادل منڈلانے لگے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور ملاقات میں بظاہر آرمی چیف کو وزیرِاعظم کی جگہ گلگت بلتستان کی صوبائی حیثیت پر تبادلہ خیال کرنا پڑا۔ وزیرِاعظم کی جانب سے ان ذمہ داریوں سے گریز کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
وزیرِاعظم ماضی میں یہ ثابت کرچکے ہیں کہ جب ضرورت ہو تو وہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے شہباز شریف کی بطور قائد حزبِ اختلاف تقرری روکنے اور بعد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ان کے انتخاب کو روکنے کا اپنا ارادہ بدل لیا تھا۔ لہٰذا آئین کی پاسداری کرتے ہوئے وزیرِاعظم کو قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کے ساتھ روابط سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔