مندرجہ ذیل ذکر 17 اکتوبر 2022 کو بی بی سی اردو میں مندرجہ ذیل لنک پر شائع ہوا۔
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63280325
اتوار کے روز پاکستان میں قومی اسمبلی کی آٹھ اور صوبائی اسمبلی کی تین تشستوں کے لیے ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس کے نتیجے میں غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں میں سے چھ پر پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان جبکہ دو پر پاکستان پیپلزپارٹی کامیاب ہوئی۔
پنجاب کی تین صوبائی نشستوں میں سے دو پاکستان تحریک انصاف اور ایک نشست مسلم لیگ نون نے جیتی۔
قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں میں سے سات پر پی ٹی آئی چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان خود اُمیدوار تھے، ملتان کی نشست پر شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو قریشی نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا جبکہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے دو ، جمعیت علما اسلام ف (جے یو آئی ف) نے ایک ، پیپلز پارٹی نے دو، مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) نے دو اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے ایک سیٹ پر الیکشن لڑا۔
اس طرح غیر حتمی و غیر سرکاری نتیجے کے مطابق پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی دو نشستیں گنوائی جبکہ مسلم لیگ نون نے اپنے دونوں حلقے کھو دیے۔ جے یو آئی ف، اے این پی اور ایم کیو ایم کامیاب نہ ہو سکیں جبکہ پیپلزپارٹی نے اپنی دونوں سیٹیں جیت لیں۔
عمران خان مزید جارحانہ انداز اپنا لیں گے؟
عمران خان نے قومی اسمبلی کی آٹھ سیٹوں میں سے سات پر الیکشن لڑا اور چھ پر کامیاب ہو کر اپنا ہی سابقہ ریکارڈ توڑ دیا۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر الیکشن جیتے تھے۔ لہٰذا یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ سیاسی مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں گذشتہ برس کے بلدیاتی انتخابات کے بالخصوص پہلے مرحلے کے نتائج پر پی ٹی آئی کو کافی دھچکہ لگا تھا جبکہ ضمنی الیکشن میں تینوں سیٹوں پر کامیابی نے جہاں پارٹی کے اعتماد میں اضافہ کیا، وہیں اس پر بھی مہر ثبت ہو گئی کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی آج بھی مقبول جماعت اور عمران خان مقبول سیاسی لیڈر ہیں۔
اے این پی، جے یو آئی ف اور اِن کے اتحادیوں کو خیبر پختونخوا کے محاذ پر مکمل طور پر شکست ہوئی۔ اسی طرح پنجاب کے دو اہم ترین حلقوں فیصل آباد این اے 108اور ننکانہ صاحب این اے 118میں پی ٹی آئی کا نون لیگ کو شکست دینا معمولی واقعہ نہیں۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن کو رواں برس جولائی میں صوبائی حلقوں میں مات کے بعد یہ شکست ملنا ازحد تشویشناک پہلو ہے۔ اسی طرح کراچی کے ایک حلقہ میں عمران خان نے ایم کیو ایم کے اُمیدوار کو شکست دے کر کراچی میں اپنی مقبولیت کو برقرار رکھا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ انتخابی نتائج سے ملنے والی مقبولیت کے بعد عمران خان مزید جارحانہ انداز اختیار کر سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں سینیئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’قومی اسمبلی کی چھ نشستوں پر جیت سے عمران خان خوش ہوں گے اور اس کو اپنی مقبولیت کی فتح قرار دیں گے، جس کے بعد وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار دکھائی دے سکتے ہیں۔‘
انتخابی اُمور کے ماہر احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر عمدہ کارکردگی نے عمران خان کی مقبولیت پر مہر لگا دی ہے۔ اب وہ بلند آہنگ کے ساتھ سامنے آئیں گے۔‘
عمران خان کے ووٹرز نے کس بات کا ثبوت دیا؟
پی ٹی آئی کے کارکنان کے بارے یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ وہ عمران خان کے جلسوں میں تو شریک ہوتے ہیں مگر ووٹ ڈالنے میں جلسے جلوسوں جیسے جوش وخروش کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
علاوہ ازیں عمران خان سوشل میڈیا پر تو بہت مقبول ہیں اور میڈیا میں اِن رہنے کا ہنر جانتے ہیں مگر حلقے کی سیاست کو نہیں سمجھتے اور اِن کا ووٹر جو نوجوان طبقے سے تعلق رکھتا ہے، سوشل میڈیا پر عمران خان کے بیانیے کو تو ضرور فروغ دیتا رہتا ہے مگر نچلی سطح پر بیانیے کو منتقل کرنے میں ناکام رہتا ہے، لہٰذا یہ گھروں سے نکل کر پولنگ سٹیشن کا رُخ خود بھی شاید کم کرے گا اور دوسرے ووٹرز کو لبھانے میں بھی ناکام رہے گا۔
تاہم گذشتہ روز کے الیکشن نے عمران خان کے ووٹرز کو مختلف روپ عطا کر دیا ہے۔
عمران خان اپنی سیاسی برتری کو بطور ہتھیار استعمال کریں گے؟
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان اپنی اس برتری کو نومبر کی اہم تعیناتی پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کریں گے۔
واضح رہے کہ ضمنی الیکشن کے انعقاد سے قبل بھی سیاسی و سماجی حلقوں میں یہ پہلو زیرِ بحث رہا کہ عمران خان پاکستان کی مقتدرہ کو یہ تاثر ضرور دینا چاہتے ہیں کہ وہ اس وقت مقبول ترین لیڈر ہیں اور عوام اُن کے ساتھ ہیں۔
لہٰذا ضمنی الیکشن میں زیادہ سیٹوں پر کامیاب ہو جانے کے بعد تو وہ اس بات کا برملا اظہار کریں گے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی غلطی کو سمجھے۔
اسی طرح کا اظہار گذشتہ رات الیکشن نتائج کے وقت اسد عمر کی جانب سے ہوا۔ اُن کاکہنا تھا ’جو چھ ماہ میں ہوا، عوام نے اُس کا غصہ آج نکالا، فیصلہ ساز اپنی غلطی کو سمجھیں۔‘
ضمنی انتخابات کے نتائج سے عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر اپنے لیے سیاسی سپیس پیدا کرنے کی سعی کر سکتے ہیں۔
واضح برتری، ممکنہ لانگ مارچ کو کتنا مؤثر بنا سکتی ہے؟
عمران خان حالیہ عرصے میں متعدد بار لانگ مارچ کا عندیہ دے چکے ہیں بلکہ اس ضمن میں پارٹی کارکنوں اور رہنماؤں سے حلف بھی لے چکے ہیں۔
ضمنی الیکشن سے قبل کہا جا رہا تھا کہ اگر عمران خان جیت گئے تو یہ کہہ کر کہ عوام اُن کے ساتھ ہیں لانگ مارچ کا اعلان کر دیں گے اور اگر ہار جاتے ہیں تو الیکشن کمیشن پر جہاں تنقید کی بوچھاڑ کریں گے وہاں اسلام آباد کی طرف یہ کہہ کر رُخ بھی کریں گے کہ ہمارے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔
اب جبکہ وہ خود سات میں سے چھ سیٹوں پر غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق فتح یاب ہو چکے ہیں تو ممکنہ لانگ مارچ کتنا مؤثر بنا سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا ’عمران خان نے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے لیے اپنی مقبولیت کا سہارا لیا، اس کامیابی کی بدولت اسلام آباد لانگ مارچ کا جواز بنایا اور ایک حد تک وہ اپنے ہدف کو پا گئے ہیں۔‘
جبکہ سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے مذکورہ سوال کے ضمن میں مختلف رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘میرا خیال ہے کہ عمران خان اپنی اس جیت کے بعد لانگ مارچ نہیں کریں گے۔ وہ اس وقت اپنے پرانے ساتھیوں اور وکلا کے مشوروں پر انحصار کر رہے ہیں۔ البتہ اگر زیادہ سیٹیں ہار جاتے تو ردِعمل ضرور دیتے۔‘
پنجاب میں مسلم لیگ نون کی شکست کیا معنی رکھتی ہے؟
پنجاب میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں بالترتیب این اے 108 اور این اے 118میں مسلم لیگ ن کے اُمیدوار، تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان سے شکست سے دوچار ہوئے۔
فیصل آباد کی نشست این اے 108پر عابد شیر علی کو واضح شکست ہوئی جبکہ ننکانہ صاحب کی نشست پر شذرہ منصب بھی اپنی سیٹ نہ بچا سکیں۔
اب سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کا ووٹر کدھر گیا؟
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ نون کا ووٹرز بتدریج کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور یہ پہلو اس جماعت کے لیے بہت تشویشناک ہے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق ’یہ الیکشن مقبولیت کے بیانیے پر ہوئے۔ پنجاب سے مسلم لیگ نون کا سیٹیں ہارنا ان کے لیے قابل تشویش رہے گا۔ مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک ہے مگر اب کم ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ ن پر یہ شکست دباؤ کی حامل ہو گی۔‘
پنجاب کی سیٹوں پر مسلم لیگ نون کی شکست پر مرتضیٰ سولنگی تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’مسلم لیگ نون پنجاب میں ہار گئی۔ اس ضمنی الیکشن کے معرکہ میں سب سے زیادہ نقصان اسی جماعت کا ہوا۔ مسلم لیگ نون نے اس الیکشن میں بہترین اقدامات سے گریز کیا۔‘
اگر دیکھا جائے تو پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں، جو الیکشن لڑ رہی تھیں کی کارکردگی قطعی خراب رہی لیکن کیا یہ کارکردگی پی ڈی ایم اتحاد کو برقرار رکھے پائے گی یا اس میں دراڑ آ سکتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’پی ڈی ایم کی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔ اگر اس کی کارکردگی اچھی رہتی تو اس اتحاد میں شامل جماعتوں کااعتماد بڑھ جاتا مگر موجودہ کارکردگی سے اِن کا اعتماد بکھر سکتا ہے اور اتحاد بھی شاید برقرار نہ رہ پائے۔‘
تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’پی ڈی ایم کی جماعتوں کے لیے دباؤ کی کیفیت ضرور ہے لیکن حکومت کی اتحادی پیپلز پارٹی نے دو سیٹیں جیت کر دباؤ کو کم ضرور کیا ہے۔ ایک صوبائی سیٹ تو مسلم لیگ ن نے بھی جیتی ہے۔‘