مندرجہ ذیل ذکر 18 اکتوبر 2022 کو بی بی سی اردو میں مندرجہ ذیل لنک پر شائع ہوا۔
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-63288399
پاکستان کی سابق حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف رواں برس دو مرتبہ بڑے ضمنی انتخابات میں گئی اور دونوں مرتبہ اسے بھاری کامیابی حاصل ہوئی تاہم پی ٹی آئی کی ان دونوں کامیابیوں اور ان کے نتائج میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔
رواں برس ہونے والے صوبہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے نتیجے میں پاکستان تحریکِ انصاف صوبے میں اپنی کھوئی ہوئی حکومت واپس لینے میں کامیاب ہوئی تاہم قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں چھ پر کامیابی حاصل ہونے کے بعد بھی بظاہر پاکستان تحریکِ انصاف پارلیمان جانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ تمام نشستیں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے جیتی ہیں۔
کل آٹھ نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں وہ سات پر پی ٹی آئی کے امیدوار تھے جبکہ ملتان کی نشست سے سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی پی ٹی آئی کی امیدوار تھیں۔ وہ یہ مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار علی موسٰی گیلانی سے ہار گئیں۔
عمران خان خود بھی کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 237 سے کامیاب نہیں ہو پائے۔ یہ دونوں نشستیں بنیادی طور پر سنہ 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف نے جیتی تھیں تاہم ان دو کے علاوہ عمران خان چھ نشستوں سے ایک ہی وقت میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
تاہم عمران خان کی اس جیت نے پاکستان میں انتخابی عمل اور اس کی تشکیل کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ہونے والے بحث و مباحثے میں صارفین اس سے متعلق کئی سوالات پوچھتے نظر آ رہے ہیں۔
ان میں زیادہ تر سوالات اس ملکی سیاسی منظر نامے کے حوالے سے ہیں جو پاکستان تحریکِ انصاف کے چئیرمین کی جیت کے بعد سامنے آئے گا۔
بی بی سی نے ایسے ہی چند سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
عمران خان جو نشستیں چھوڑیں گے ان کا کیا ہو گا؟
اگر سابق وزیرِاعظم عمران خان پارلیمان میں جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ چھ میں سے صرف ایک نسشتیں رکھ پائیں گے۔
یاد رہے کہ قانونی طور پر وہ اب بھی قومی اسمبلی کے ممبر ہیں کیونکہ سپیکر قومی اسمبلی نے تاحال ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا۔
پاکستان میں پارلیمانی ترقی کے لیے کام کرنے والے ادارے پلڈیٹ کے سربراہ اور تجزیہ نگار احمد بلال محبوب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آئینی طور پر عمران خان اپنی پسند کی کوئی بھی ایک نشست رکھنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
’جب وہ اس نشست سے قومی اسمبلی کا حلف اٹھا لیتے ہیں تو باقی تمام نشستیں جن سے وہ جیتے ہیں اور ان کی پرانی نشست، سب ایک مرتبہ پھر ضمنی انتخابات کے لیے خالی ہو جائیں گی۔‘
تاہم اگر وہ کسی بھی نشست سے قومی اسمبلی کے ممبر کے طور پر حلف نہیں اٹھاتے تو ان تمام نشستوں پر دوبارہ الیکشن کروانا لازم ہو گا۔ جب تک عمران خان حلف لینے یا نہ لینے کے حتمی فیصلے کا اعلان نہیں کرتے، یہ معاملہ تعطل کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔
عمران خان نے اگر حلف نہیں لینا تو الیکشن میں کیوں آئے؟
پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آئے جن سے واضح ہوتا ہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان حالیہ ضمنی انتخابات کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
وہ اپنے ابتدائی مؤقف پر قائم ہیں کہ موجودہ حکومت جلد از جلد عام انتخابات کا انعقاد کرنے کا فیصلہ کرے اور وہ صرف اسی موضوع پر حکومت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
ایسی صورتحال میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان کا ارادہ پارلیمان جانے کا نہیں ہے یا نہیں تھا، تو انھوں نے انتخابات میں حصہ ہی کیوں لیا۔
صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان کسی کو اس طرح اتنی زیادہ نشستوں سے الیکشن میں حصہ لے کر اور جیت کر کسی کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ وہ کتنے مقبول لیڈر ہیں۔‘
سلمان غنی کے مطابق عمران خان اس میں خاصی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
’ان انتخابات کے نتائج کے بعد اس بات تو کوئی ابہام نہیں بچا کہ عمران خان ایک سیاسی حقیقت ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف عمران خان ہی کا الیکشن نہیں تھا بلکہ ’پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن بھی تھا۔‘
کیا دانستاً ایسا کرنا دھاندلی کے زمرے میں آ سکتا ہے؟
یہ جانتے ہوئے کہ ان کا ارادہ پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا نہیں، الیکشن میں ایک سے زیادہ نشستوں سے حصہ لینا کیا تکنیکی طور پر دھاندلی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ ایسا سوال عدالتوں کے ذریعے اٹھایا ضرور جا سکتا ہے تاہم پاکستان میں مجوزرہ قوانین کسی کو اس بات سے نہیں روکتے کہ وہ ایک سے زیادہ جگہوں سے الیکشن میں حصہ نہ لے۔
’ہمارے نظام میں یہ ایک سقم ضرور موجود ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نیت کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ آپ کیسے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ کوئی شخص پارلیمنٹ جانے کی نیت نہیں رکھتا تھا لیکن اس نے الیکشن میں حصہ لیا۔‘
تاہم احمد بلال محبوب کے خیال میں دیگر کئی بڑے جمہوری ممالک میں کسی شخص کو ایک یا زیادہ سے زیادہ دو نشستوں سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔
’میرے خیال میں پاکستان جیسے ملک میں صرف ایک نشست ہی کی اجازت ہونا چاہیے۔‘
ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کی صورت میں ایک کو چھوڑ کر باقی نشستوں پر ہونے والے الیکشن کے اخراجات اس امیدوار کو خود ادا کرنا چاہیے۔
’پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والا شہری ان اخراجات کو کیوں برداشت کرے جو بالکل ضائع ہو گئے۔‘
کیا تمام نشستوں سے الیکشن لڑنا عمران خان کی سیاسی چال تھی؟
تجزیہ نگار اور صحافی سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں کی طرف سے پی ٹی آئی کے تمام کے بجائے گنتی کے چند ممبران کے استعفے منظور کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔
سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’پی ڈی ایم کی حکومت نے یہ سمجھا کہ جن گیارہ نشستوں پر انھوں نے استعفے قبول کیے ہیں وہاں ضمنی انتخابات کی صورت میں ان کے حمایت یافتہ امیدواروں کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔’‘
ان کا خیال ہے کہ شاید یہی وجہ بنی کہ عمران خان نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کی اس چال کو ناکام بنانے کے لیے تمام نشستوں سے خود الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان اور ان کی جماعت کا مؤقف رہا ہے کہ وہ ضمنی انتخابات نہیں بلکہ عام انتخابات چاہتے ہیں۔
سلمان غنی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی اور دوسری طرف عمران خان اور ان کی جماعت اپنے سیاسی نتائج حاصل کرنے میں زیادہ تر کامیاب رہی۔
کیا پی ٹی آئی کی جیت عمران خان کی وجہ سے ہوئی؟
حالیہ ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی سات نشستوں پر پی ٹی آئی کی طرف سے صرف عمران خان خود ہی امیدوار تھے۔ صرف ایک نشست ایسی تھی جس پر وہ امیدوار نہیں تھے اور پی ٹی آئی وہ ایک سیٹ ہار گئی۔
عمران خان سات میں سے صرف ایک نشست ہارے۔ بعض صارف یہ سوال بھی پوچتھے نظر آئے کہ کیا پی ٹی آئی میں عمران خان کے علاوہ ایسی قیادت موجود نہیں جن پر عمران خان اعتماد کر سکتے کہ وہ الیکشن جیت سکتے ہیں؟
پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں کہ پی ٹی آئی کی حالیہ جیت صرف عمران خان کے تمام نشستوں سے امیدوار کے طور پر سامنے آنے کے مرہونِ منت ہے۔
’عمران خان کی اس وقت جس قسم کی مقبولیت ہے اگر ان کی جماعت کا کوئی دوسرا امیدوار بھی الیکشن میں حصہ لیتا تو بھی پی ٹی آئی زیادہ تر نشستوں سے جیت ہی جاتی۔‘
احمد بلال محبوب کے مطابق موجودہ حالات میں عمران خان کے حمایت یافتہ امیدوار کے لیے بھی جیتنا مشکل نہیں۔
پی ٹی آئی نے جن نشستوں پر استعفے دیے ان پر ضمنی الیکشن کب ہو گا؟
پاکستان تحریکِ انصاف کا یہ مؤقف ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہو چکے ہیں اور ان کے 131 ممبران اپنے استعفے سپیکر قومی اسمبلی کو جمع کروا چکے ہیں تاہم قومی اسمبلی کے سپیکر نے ان تمام ممبران کے استعفے منظور نہیں کیے۔
سپیکر قومی اسمبلی کا مؤقف ہے کہ یہ تمام استعفے ہاتھ سے نہیں لکھے گئے جو کہ قواعد کے خلاف ہے اور یہ کہ وہ ہر ایک ممبر سے ملاقات کر کے یہ یقین دہانی کریں گے کہ انھوں نے اپنی مرضی سے استعفٰی دیا۔
سپیکر قومی اسمبلی نے تاحال صرف گیارہ پی ٹی آئی ممبران کے استعفے منظور کیے ہیں۔ اس ہی کے نتیجے میں خالی ہونے والی سات نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے ہیں۔
پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے مطابق استعفوں کے حوالے سے پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے دیے جانے والے کسی بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
’جب سپیکر قومی اسمبلی ان کے ممبران کے استعفے منظور کرنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نوٹیفائی کریں گے، اس کے بعد ہی ان نشستوں کو خالی تصور کیا جائے گا۔‘
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اس کے بعد الیکشن کمیشن ان نشستوں پر ضمنی انتخابات کروانے کا پابند ہو گا۔