مندرجہ ذیل ذکر 23 مئی 2022 کو بی بی سی اردو میں مندرجہ ذیل لنک پر شائع ہوا۔
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61546281
پاکستان کی سیاست پر تبصرہ کرنے والے حلقوں کے مطابق آج کل پنجاب کی سیاست ہچکولے کھا رہی ہے۔ ویسے تو منتخب وزیراعلیٰ پاکستان مسلم لیگ نون کے حمزہ شہباز شریف ہیں تاہم ابھی تک وہ اپنی کابینہ تشکیل نہیں دے پائے۔
صوبے میں کوئی گورنر نہیں، ڈپٹی سپیکر اور سپیکر کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے جبکہ صوبائی اسمبلی میں نمبر گیم اب تک واضح نہیں۔
پنجاب اسمبلی کے 22 مئی کو ہونے والے اجلاس کو پہلے 30 مئی کو بلایا گیا تھا لیکن سنیچر کی شب اسمبلی اجلاس کا نوٹیفیکشن جاری کیا گیا اور اتوار کے روز اجلاس بلایا گیا تاہم اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی اسمبلی جانے والے راستے بند کر دیے گئے۔
ہمیں بھی میڈیا کا کارڈ دیکھا کر ہی اسمبلی تک جانے کی اجازت ملی۔ جب میں اسمبلی پہنچی تو اسمبلی ملازمین، میڈیا کے لوگوں سمیت چند ارکان اسمبلی بھی وہاں گیٹ پر موجود تھے۔ چند گھنٹے گزرنے کے بعد وہاں مسلم لیگ نون اور ان کے اتحادی بھی پہنچ گئے لیکن ان کے لیے بھی دروازہ نہیں کھولا گیا۔
نون لیگ کے ارکان اسمبلی گیٹ کھلوانے کے لیے دروازہ پیٹے ہوئے گلہ کرتے رہے کہ ’یہ کیا طریقہ ہے، ہمیں اندر کیوں نہیں جانے دیا جا رہا‘، جس پر وہاں کھڑے صحافیوں کی جانب سے پوچھا گیا کہ ’آپ تو کہتے ہیں کہ حکومت آپ کی ہے تو پھر یہ کون کر رہا ہے۔‘
نون لیگ کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ چوہدری پرویز الٰہی کے کہنے پر سیکرٹری اسمبلی محمد خان بھٹی اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے یہ سب کیا جا رہا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ نون لیگ کی حکومت ہے اور وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔
خیر کچھ دیر بعد اسمبلی کا گیٹ کھول دیا گیا۔ چند منٹ بعد ہی سپیکر چوہدری پرویز الٰہی اپنے قافلے کے ساتھ پہنچے لیکن ان سمیت پی ٹی آئی کے تمام لوگوں کے چہروں پر ایک الگ ہی قسم کی مسکراہٹ تھی۔
اسمبلی کارروائی کا دورانیہ صرف تین سے چار منٹ
کچھ دیر میں ہی اجلاس کی کارروائی شروع ہونے کے لیے گھنٹیاں بجائی گئیں۔ اس وقت مسلم لیگ نون اور اتحادی بھی جمع ہو رہے تھے۔ میں بھی اسمبلی کے اندر چلی گئی۔ اندر دیکھا تو پی ٹی آئی اور ان کے اتحادی پہلے ہی حکومتی بینچز پر بیٹھے تھے۔
پی ٹی آئی اور پینل آف چئیر کے رکن وسیم خان نے اسمبلی کی کارروائی فوراً شروع کر دی اور پوچھا کہ مسلم لیگ نون کے رکن سمیع اللہ چوہدری کی جانب سے سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی تھی، وہ کہاں ہیں؟
پھر انھوں نے کہا کہ کیونکہ اس درخواست کا موور ہال میں موجود نہیں تو اس لیے کسی کو کوئی اعتراض نہیں، لہذا سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی درخواست خارج کی جاتی ہے اور چھ جون تک اجلاس ملتوی کیا جاتا ہے۔
اسی وقت مسلم لیگ نون کے تمام لوگ ایوان میں داخل ہوئے۔ یہ تمام تر کارروائی تین سے چار منٹ میں کی گئی۔ اس کارروائی کے بعد مسلم لیگ نون کے ارکان اسمبلی اور اتحادیوں کے چہرے دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ شاید انھیں یہ سب ہونے کی امید نہیں تھی۔
مسلم لیگ نون کی رکن اسمبلی عظمیٰ بخاری ایوان میں خاصے غصے میں نظر آئیں اور اپنی پارٹی کے لوگوں سے پوچھنے لگیں کہ یہ کیوں ہوا۔۔۔ آخر ہمیں چلا کون رہا ہے؟ آج ہمیں کون لیڈ کر رہا ہے؟ جس پر پارٹی کے دیگر اراکین نے انھیں خاموش کروایا۔
یاد رہے کہ سپیکر پرویز الہی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد نمٹائے جانے کے بعد اتوار کو ہی مسلم لیگ نون کی جانب سے سپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف دوبارہ تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی گئی ہے۔ یہ تحریک مسلم لیگ نون کے رکن خلیل طاہر سندھو نے وفد کے ہمراہ جمع کروائی۔
کیا نون لیگ کے پاس نمبر پورے نہیں؟
اس تمام تر کارروائی کے بعد ایک سوال جو بیشتر حلقوں کی جانب سے پوچھا گیا وہ یہ تھا کہ آج مسلم لیگ نون وقت پر ایوان کی کارروائی کے لیے کیوں نہیں پہنچی؟ کیا ان کے پاس ایوان میں نمبر کم تھے؟
ان تمام تر سوالات کا جائزہ لیں تو پہلے پی ٹی آئی کے پاس پنجاب میں 183 سیٹیں تھیں جس میں سے 25 اراکین کو الیکشن کمیشن نے ڈی سیٹ کر دیا، جس کے بعد یہ تعداد 158 ہو گئی۔ اگر اس میں مسلم لیگ قاف کے 10 ووٹ ملائیں تو کل ووٹ 168 بنتے ہیں۔
یاد رہے کہ ڈی سیٹ ہونے والے اراکین میں سے پانچ لوگ مخصوص نشستوں پر تھے اور ان نشستوں پر سپیکر نئے اراکین کا حلف لے سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ تعداد بڑھ کر 173 بن جائے گی۔
دوسری جانب مسلم لیگ نون کی کل تعداد دیکھی جائے تو وہ 166 ہے۔ ایک رکن فیصل نیازی نے آج اپنی نشت سے استعفی دے دیا، جس کے بعد یہ تعداد 165 بنتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مسلم لیگ نون کے بھی چار لوگوں کا شمار ناراض اراکین میں ہوتا ہے جبکہ اگر اتحادیوں کی بات کریں اور پاکستان پیپلز پارٹی سے سات اراکین کو شامل کریں تو یہ تعداد 172 بنتی ہے۔
اسی صورتحال میں راہ حق پارٹی کا ایک ووٹ اور چار آزاد امیدوار اس بات کا فیصلہ کریں کہ انھوں نے کسے ووٹ دینا ہے۔
اس معاملے پر بی بی سی کی جانب سے مسلم نون اور ان کے اتحادیوں سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اتوار کے روز جو کچھ ہوا وہ پارٹی کی پالیسی تھی یا پھر آپ لوگوں کے پاس نمبر پورے نہیں تھے؟
کئی اراکین کی جانب سے یہ کہا گیا کہ دروازے بند تھے، ہمیں اندر آنے نہیں دیا گیا لیکن کچھ نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ہم نمبر پورے کر لیں گے۔
اسی بارے میں پیپلز پارٹی کے علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ یہ تو سچ ہے کہ نہ تو ہمارے نمبر پورے ہیں اور نہ ہی ان کے لیکن آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سپیکر پر ووٹنگ خفیہ اندازمیں ہوتی ہے اس لیے کوئی بھی کہیں بھی اپنا ووٹ ڈال سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں اگر یہی صورتحال رہی اور وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑ گیا تو مسلم نون کے لیے مشکل ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے وہ اراکین جو ناراض ہیں، اگر وہ ووٹنگ والے دن غیر حاضر ہو جاتے ہیں تو نون لیگ کے لیے نمبر گیم پوری کرنے میں مسئلہ ہو سکتا ہے۔
پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے بی بی سی کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے 25 منحرف اراکین کی اسمبلی رکنیت ختم کرنے کے بعد اب حکومت اور اپوزیشن کسی کے پاس اکثریت نہیں رہی۔
ان کے مطابق عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے اسمبلی کے کل ارکان کی اکثریت درکار ہوتی ہے جو پنجاب اسمبلی میں 186 ارکان بنتے ہیں۔
احمد بلال محبوب کے مطابق سپیکر پرویز الہیٰ نے یہ اجلاس اس وجہ سے بھی جلدی بلایا ہو گا تاکہ اب وہ قائم قام گورنر کا حلف اٹھا کر اور نئے گورنر کی تعیناتی سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا کہہ سکیں۔
’اگر انھوں نے ایسا کیا تو پھر وزیر اعلیٰ کو اس وقت 186 ارکان کی حمایت حاصل نہیں اور یوں وہ اپنے عہدے سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔‘













