شہباز شریف ہونا بھی کیا دل گردے کا کام ہے! خاص طور پر اپریل 2022 کے بعد سے جب وہ 13 ایک سے بڑھ کرایک منہ زور جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت کے وزیرِ اعظم بنے۔ کبھی پیپلز پارٹی کا دباؤ، کبھی مولانا فضل الرحمان کی خفگی، کبھی MQM کی نرم گرم دھمکیاں، ان سارے پریشرز سے نمٹنے کے لئے بہت غیر معمولی قوتِ برداشت چاہئیے۔ یہ اور بھی غیر معمولی phenomenon بن جاتا ہے جب ہم یہ جانتے ہیں کہ موصوف کینسر سے مقابلہ کر چکے ہیں اور کمر درد کے عارضے میں مسلسل مبتلا ہیں۔ خود اپنی جماعت مسلم لیگ نواز کے اندر ایک مضبوط دھڑا ان کے لئے سب سے بڑی حزبِ اختلاف ہے۔ ہزاروں میل دور لندن میں مقیم اپنے قائد اور بڑے بھائی نواز شریف کو مسلسل مطمئن رکھنا بھی ایک بھاری چیلنج سے کم نہیں۔ ہر وزیرِ اعظم کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی ہر آن لٹکتی تلوار اورتقریباً ہر معاملے میں دخیل انٹیلی جینس ایجنسیوں کے ساتھ تعلقات استوار رکھنا بھی ایک سپرُہیومن صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ موصوف ایک compulsive قسم کے انتہائی ایکٹو وزیرِ اعظم بھی ہیں جنہیں کسی پل چین نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ دیوالیہ پٹتی ہوئی معیشت اور IMF سے ہر لمحے آستینیں چڑھا کے بر سرِ پیکار وزیرِ خزانہ بھی ان کے حصے میں آئے اور نتیجتاً IMF کے ساتھ مذاکرات کا کوہِ گراں بھی انہیں ہی اٹھانا پڑا۔ اگر یہ سب نہ بھی ہو تو دو بیگمات کے ساتھ تعلق کو مسلسل کامیابی سے نبھانا بھی کسی معمولی شخصیت کا کام نہیں۔