The following mention appeared in jang on Dec 24, 2022, at the following link
https://jang.com.pk/news/1174239
صدر پلڈاٹ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ہائیکورٹ کے فیصلے سے پی ٹی آئی، ق لیگ ن لیگ سب کو کچھ نہ کچھ مل گیا ہے مگر عمران خان کے بیانیہ کو نقصان پہنچا ہے.
سینئر تجزیہ کار منیب فاروق نے کہا عدالتی فیصلے سے تحریک انصاف کا اسمبلی تحلیل کرنے کا بیانیہ پٹ گیا،پرویز الٰہی کیلئے اعتماد کاووٹ لینا مشکل ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ ہمارے موقف کی تائید ہے
وزیراعلیٰ نے لکھ کر دیا ہے کہ گیارہ جنوری تک اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے،اب ہمارا فیصلہ ہوگا کہ اعتماد کا ووٹ گیارہ جنوری سے پہلے لیں گے یا بعد میں لیں گے
ق لیگ کے کامل علی آغا نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے ڈی نوٹیفائی کرنے کی نوٹیفیکیشن پرچیف سیکرٹری نے دباؤ آکر دستخط کیے، وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک احمد خان نے کہا وزیراعلیٰ کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن گورنر کے حکم پر جاری کیا گیا
چیف سیکرٹری کیلئے گورنر کے آئینی حکم پر عمل کرنا ضروری تھا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما کامل علی آغا نے کہا کہ گورنر کا وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنا غیرآئینی ہے، پنجاب اسمبلی کے دو اجلاس جاری ہیں اس دوران وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے تیسرا اجلاس بلانے کا کہنا اصولی طور پر غلط تھا
حمزہ شہباز کو جس اجلاس میں وزیراعلیٰ منتخب کروایا گیا تھا آج تک وہ اجلاس ختم نہیں کیا گیا ہے، دوسری طرف اسپیکر کا بلایا گیا پنجاب اسمبلی کا اجلاس کئی ماہ سے چل رہا ہے۔ کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کم از کم دس دن کا وقت دیا جانا چاہئے، حکومتی اتحاد کے کچھ لوگ بیرون ملک ہیں ہمیں انہیں بلانے کیلئے وقت مل گیا ہے.
گیارہ جنوری سے قبل پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لے لیں گے، پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد عمران خان کی ہدایت کے مطابق اسمبلی توڑ دیں گے، ق لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی تنازع نہیں ہے۔
کامل علی آغا نے کہا کہ پرویز الٰہی اور ایم پی ایز کی خواہش تھی ابھی اسمبلیاں نہ توڑی جائیں، چار سال میں عوامی نمائندوں کو فنڈز نہیں ملے، پرویز الٰہی نے بہت سی ترقیاتی اسکیمیں شروع کی ہیں ان کے نتائج دیکھنا ضروری تھا، چیف سیکرٹری کل تک سمجھتے تھے گورنر کاوزیراعلیٰ کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن غیرقانونی ہوگا.
چیف سیکرٹری پر دباؤ آیا تو پھر نوٹیفکیشن پر دستخط کیے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک احمد خان نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن گورنر کے حکم پر جاری کیا گیا، چیف سیکرٹری کو آئین اور گورنر کے حکم نے دستخط پر مجبور کیا، چیف سیکرٹری کیلئے گورنر کے آئینی حکم پر عمل کرنا ضروری تھا، فواد چوہدری پتا نہیں کیا کیا کہتے رہتے ہیں، ہماری واضح پوزیشن ہے صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہیں ہونی چاہئے
پرویز الٰہی حکومتی مشینری کے استعمال کے باوجود آج 169ایم پی ایز اکٹھے کرسکے، پی ٹی آئی کے بیرون ملک چار ارکان واپس آجائیں تب بھی تعداد 173ہوگی، پرویز الٰہی گیارہ جنوری تک اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکتے
عمران خان کو سپریم کورٹ سے صادق و امین قرار دلواکر این آر او دیا گیا، تحریک انصاف والے دباؤ کے جھوٹے بیانیے ترتیب دیتے ہیں، ہائیکورٹ نے یہ بات بھی کیہ کہ پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینا ہے۔
صدر پلڈاٹ احمد بلال محبوب نے کہا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے سے پی ٹی آئی، ق لیگ ن لیگ سب کو کچھ نہ کچھ مل گیا ہے مگر عمران خان کے بیانیہ کو نقصان پہنچا ہے، پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ بچ گئی ہے
ن لیگ نے اسمبلی کی تحلیل آگے بڑھوادی ہے، پی ٹی آئی بھی گورنر کا نوٹیفکیشن معطل ہونے پر خوشیاں مناسکتی ہے، گیارہ جنوری کے بعد اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو رمضان آجائے گا، رمضان میں الیکشن ممکن نہیں اسکے بعد قبل از وقت انتخابات کی کہانی اپنا اثر کھودے گی۔
سینئرتجزیہ کار منیب فاروق نے کہا کہ پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے پریقین ہیں تو انہیں گورنر سے مناسب وقت مانگ لینا تھا، عمران خان کو اس تمام کارروائی میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، تحریک انصاف کا اسمبلی تحلیل کرنے کا بیانیہ پٹ گیا ہے، پرویز الٰہی کیلئے اعتماد کا ووٹ لینا مشکل ہوگا۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ ہمارے موقف کی تائید ہے، وزیراعلیٰ نے لکھ کر دیا ہے کہ گیارہ جنوری تک اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے،اب ہمارا فیصلہ ہوگا کہ اعتماد کا ووٹ گیارہ جنوری سے پہلے لیں گے یا بعد میں لیں گے.
گورنر کا وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنا آئین کے مطابق تھا تو ہائیکورٹ نے انہیں بحال کیوں کیا، جاری سیشن میں یہ پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لیں گے، گورنر نے اعتماد کے ووٹ کیلئے اٹھارہ گھنٹے کا وقت دیا ہم زیادہ وقت چاہتے تھے، گورنر کے الزام کے برعکس ق لیگ کے تمام دس ایم پی ایز پرویز الٰہی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
سبطین خان کا کہنا تھا کہ گورنر نے جتنے بھی نکات اٹھائے وہ ہمارے اندرونی معاملات ہیں، ایم پی اے خیال کاسترو کو وزارت دینے پر چیئرمین پی ٹی آئی اپ سیٹ ہوتے تو مجھے یا پرویز الٰہی کو کہتے، وزیر خوراک حسنین بہادر دریشک کی پرویز الٰہی سے مس انڈراسٹینڈنگ ہوئی ہے وہ ناراض ہیں، ہمارے سات آٹھ لوگ اپنے مسائل کی وجہ سے نہیں آئے جبکہ دو تین ایم پی ایز بیرون ملک گئے ہوئے ہیں۔
سبطین خان نے کہا کہ میرے خلاف تحریک عدم اعتماد موجود ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہماری حکومتیں ہیں، ہم اسمبلی خود توڑناچاہتے ہیں عوام کے پاس جانا چاہتے ہیں تو انہیں کیا تکلیف ہے، ن لیگ چاہتی ہے ہم پنجاب اسمبلی سے استعفے دیں جنہیں یہ قومی اسمبلی کی طرح لٹکائے رکھیں، اپوزیشن کا تحریک عدم اعتماد لانے کا حق محفوظ ہے
لاہور ہائیکورٹ میں معاملہ جانے کے بعد رمضان سے پہلے الیکشن مشکل لگ رہے ہیں، 23دسمبر کو اسمبلیوں کی تحلیل میں رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی تو رمضان سے پہلے الیکشن ہوجاتے، الیکشن رمضان میں یا عید کے فوری بعد ہوسکتے ہیں، میرے پاس استعفے آئے تو آدھے گھنٹے میں قبول کرلوں گا۔