The following mention appeared in Jang on Oct 20, 2022, at the following link
https://jang.com.pk/news/1149667
الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آئینی ترمیم کیلئے تجویز تیار کر رہی ہے جس کے تحت ایک امیدوار کو دو سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑنے سے روکا جا سکے گا کیونکہ اس سہولت کی وجہ سے ایک ہی نشست پر متعدد مرتبہ الیکشن کرانا پڑتے ہیں جس سے نہ صرف قومی خزانے پر بوجھ پڑتا ہے بلکہ ووٹروں کو بھی غیر ضروری تکلیف سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔
الیکشن کمیشن کو اس بات کا احساس اس وقت ہوا جب عمران خان نے ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی سات نشستوں پر کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے۔ اب جبکہ وہ 6؍ حلقوں سے جیت چکے ہیں اسلئے انہیں 5؍ نشستیں خالی کرنا ہوں گی۔ چونکہ وہ پہلے ہی رکن قومی اسمبلی ہیں اسلئے وہ نشست بھی سرکاری نتائج کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد خالی ہو جائے گی۔ نتیجتاً، 6؍ نشستوں پر دوبارہ ضمنی الیکشن کرانا ہوں گے۔
قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ضمنی الیکشن میں بیلٹ پیپرز، پولنگ اسٹاف کو ادائیگی، پولنگ ملازمین کی تربیت، سامان کی ترسیل، سیکورٹی اخراجات اور دیگر معاملات پر قومی خزانے سے 7؍ کروڑ 58؍ لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ الیکشن لڑنے والے امیدوار نے جو رقم خرچ کی وہ الگ ہے۔
اندازے کے مطابق، قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کیلئے امیدوار کو چار سے پانچ کروڑ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اگرچہ الیکشن کا مقصد حلقے کے عوام کو نمائندگی دینا ہوتا ہے لیکن یہ معاملہ بے سود ثابت ہوا ہے۔
عمران خان کے الفاظ سے رہنمائی لی جائے تو عوام نے یہ جانتے ہوئے انہیں ووٹ دیا کہ وہ اسمبلی میں نہیں بیٹھیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریفرنڈم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے قومی خزانہ استعمال کرتے ہوئے یہ مشق کی۔
اب جبکہ 6؍ نشستوں پر دوبارہ ضمنی الیکشن ہوں گے اسلئے قومی خزانے سے 45؍ کروڑ 48؍ لاکھ روپے خرچ ہوں گے جبکہ الیکشن لڑنے والے امیدوار غالباً اپنے مالی مددگاروں (فنانسر) کے پیسے پر الیکشن لڑیں گے۔
آئین کے آرٹیکل (2)223 کے مطابق، ایک شخص دو یا زیادہ نشستوں پر بیک وقت الیکشن لڑ سکتا ہے۔ عمران خان نے اس شق کا استعمال کرکے تاریخ رقم کی ہے۔ 2018ء میں انہوں نے پانچ نشستوں پر الیکشن لڑا تھا۔ ان سے قبل ذوالفقار بھٹو نے پانچ نشستوں پر الیکشن لڑا تھا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویپلمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اس ترمیم کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ نقائص والی اس شق کے حوالے سے خصوصاً ضمنی الیکشن کے بعد احساس بڑھ رہا ہے۔ چونکہ اس آئینی ترمیم کا نہ صرف ماضی میں نامناسب انداز سے فائدہ اٹھایا گیا ہے بلکہ کسی کو اس کا احساس بھی نہیں ہوا لیکن اب اس کا احساس پایا جاتا ہے۔
دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ اس ترمیم پر کوئی مخالفت سامنے آئے گی۔ اب چونکہ تجویز پر کام ہو رہا ہے، الیکشن کمیشن مختلف ملکوں میں جاری طریقہ کار پر غور کر رہا ہے تاکہ قانون سازی کیلئے جواز پیش کیا جا سکے اور یہ طے کیا جا سکے کہ ایک امیدوار کتنی نشستوں پر الیکشن لڑ سکتا ہے۔ جن ملکوں کے الیکشن طرز پر غور ہو رہا ہے ان میں بھارت بھی شامل ہے۔
اس بات پر بھی غور ہو رہا ہے کہ امیدوار کو صرف ایک نشست پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے بصورت اس امیدوار کی جانب سے خالی کی جانے والی نشست پر ضمنی الیکشن کے اخراجات اسی امیدوار سے لیے جائیں۔
1996ء تک بھارت میں مختلف نشستوں پر الیکشن لڑنے پر کوئی پابندی نہیں تھی لیکن الیکشن کمیشن آف انڈیا نے چار مرتبہ (2004، 2010، 2016ء اور اس کے بعد 2018ء میں) موجودہ قوانین میں ترمیم کی تاکہ ایک امیدوار کو ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑنے سے روکا جا سکے۔ یہ ترامیم بھارتی حکومت اور سپریم کورٹ میں پیش کی گئیں لیکن اب تک کچھ نہیں ہوا۔
1996ء میں بھارتی الیکشن قوانین میں ترمیم سے قبل امیدوار اپنی مقبولیت کو ثابت کرنے کیلئے ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑا کرتے تھے یا پھر کسی نشست پر الیکشن ہارنے کے خطرے کو کم کرنے کیلئے۔ لیکن اس کے باوجود تین سے زیادہ نشستوں پر کسی نے الیکشن نہیں لڑا۔
یہ مثال اٹل بہاری واجپائی نے 1957ء میں قائم کی تھی جب انہوں نے تین مختلف نشستوں پر الیکشن لڑا تھا۔ 1996ء میں ترمیم کے بعد، کانگریس لیڈر سونیا گاندھی، ان کے بیٹے راہول اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے دو نشستوں پر الیکشن لڑا